تاریخ اور ابتدائی اسباب
دسمبر2019ء کے آخرمیں چین سے تعلق رکھنے والے صحت کے افسران نے عالمی ادارہ صحت کو بتایا کہ انھیں ایک مسئلے کا سامنا ہے: وہان نامی شہر میں ایک نامعلوم اور نیا وائرس نمونیا جیسی بیماری پھیلا رہا تھا۔ یہ تعین کیا گیا کہ یہ ایک کورونا وائرس ہے جو وہان کے اندر اور باہر تیزی سے پھیلنے لگا تھا۔ جنوری میں عالمی ادارہ صحت نے کوویڈ-۱۹ کو ایک عالم گیر وبا یعنی پینڈیمک قرار دیا اور تمام ممالک کو لاک ڈاؤن کرنے کی تجویز دی۔
کوویڈ-۱۹ اب دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ یہ وائرس جسمانی رابطے سے ایک فرد سے دوسرے کو منتقل ہوتا ہے۔ یہ ایک متاثرہ فرد کی چھینک اور کھانسی سے بھی پھیل سکتا ہے۔ کھانسی اور چھینک سے ننھے قطرے گرتے ہیں جو کسی اور کی آنکھ، ناک یا منہ میں داخل ہو کر بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ مزید یہ قطرے میزاور دروازوں کے ہینڈلوں پر بھی گر سکتے ہیں۔ انھیں چھونے کے بعد اپنی آنکھ، ناک یا منہ کو چھونے سے بھی لوگ بیمار ہو سکتے ہیں۔
دسمبر میں کورونا وائرس کے رپورٹ ہونے والے تمام کیس چین میں تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ چین سے دوسرے ممالک کا سفر کرنے والے افراد کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اس سے بدترین متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ایران ہے جہاں یہ وائرس فروری کے وسط میں پھیلا۔
پاکستان کی سرحد سب سے بری طرح متاثر ہونے والے دو ممالک (چین اور ایران) سے لگتی ہے لہٰذا یہاں وائرس کا پھیلنا فطری ہے۔ چھ سو میل پر محیط پاک ایران سرحد ایک نہایت اہم تجارتی راستہ ہے اور کثیر تعداد میں شیعہ زائرین بھی اسی کو استعمال کرتے ہیں۔ دونوں ممالک میں آمد و رفت بہت عام ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستان میں کوویڈ ۱۹ کے پھیلاؤ کی راہ ہموار ہوئی۔
جیسے جیسے زیادہ لوگ سرحد پار سے آتے گئے ویسے ویسے ملک میں کورونا سے متاثرہ افرد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اب ہم سب اس کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ لوگوں کو یہ بیماری دوسرے متاثرہ افراد سے بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے پاکستان میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن عالمی ادارہ صحت کا تجویز کردو بچاؤ کا طریقہ ہے جسے امریکا اور اٹلی جیسے بڑے ملکوں نے اپنانے میں دیر کر دی۔ خود کو وائرس سے بچانے کے لیے متاثرہ افراد سے کم از کم ایک میٹر یعنی تین فٹ دور رہنا ضروری ہے۔