What is Autism?

معاشرتی فاصلہ (social distancing) رکھنے کی اصطلاح آج کل عام ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کے جمع ہونے کی ممانعت۔ یہ بالکل سادہ سی بات ہے کہ جتنے کم لوگ جمع ہوں گے اتنا وائرس کم پھیلے گا۔ یہ اس لیے بہت اہم ہے کہ اگر وائرس زیادہ تیزی سے پھیلے گا تو ہمارے ہسپتال بھر جائیں گے اور بیماروں کی مناسب نگہداشت ممکن نہیں رہے گی جس سے سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار سکتے ہیں۔

We know that there is not one autism but many subtypes, most influenced by a combination of genetic and environmental factors. Because autism is a spectrum disorder, each person with autism has a distinct set of strengths and challenges. The ways in which people with autism learn, think and problem-solve can range from highly skilled to severely challenged. Some people with ASD may require significant support in their daily lives, while others may need less support and, in some cases, live entirely independently.

دنیا بھر میں حکومتوں نے ملتے جلتے اقدامات سے معاشرتی فاصلہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ وقتی طور پر غیر ضروری کاروبار بند کر دیے گئے ہیں۔ دکانیں جلدی بند کی جا رہی ہیں۔ لوگوں کو ہجوم بنانے سے روکا جا رہا ہے اور انھیں گھروں میں رہنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات چین میں کیے گئے جہاں کورونا کو شکست دی جا چکی ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے بھی عالم گیر وباؤں میں معاشرتی فاصلہ رکھنے پر زور دیا جاتا تھا۔ اس کی ایک مثال جنگ عظیم اول کے بعد آنے والا ہسپانوی زکام ہے جس میں پانچ کروڑ افراد جان سے گئے اور دنیا بھر میں پچاس کروڑ افراد متاثر ہوئے ۔

معاشرتی فاصلہ رکھنے کے لیے تین سطحوں پر اقدامات کیے جاتے ہیں۔ سادہ ترین طریقہ تو یہ ہے کہ دوسروں سے کم از کم تین فٹ کا فاصلہ ہر وقت رکھا جائے۔ لوگ باہر نکلتے ہوئے خود حفاظتی سامان پہنیں، وائرس کی علامات پر مسلسل نظر رکھیں، گھر سے بلاضرورت باہر نہ جائیں اور گھروں میں بھی تین سے زیادہ افراد ایک جگہ جمع نہ ہوں۔ جن جگہوں پر وائرس کا پھیلاؤ کم ہو وہاں یہ اقدامات کافی ہوتے ہیں۔

اگر یہ سادہ معاشرتی فاصلہ رکھنے کے باوجود وائرس کا پھیلاؤ نہ رکے تو حکومت سخت اقدامات کرتی ہے۔ یہ پاکستان جیسے ملکوں میں ہو رہا ہے جہاں وائرس ابھی بھی پھیل رہا ہے۔ ایسے حالات میں عارضی طور پر لاک ڈاؤن کر دیا جاتا ہے اور وائرس کا پھیلاؤ رکنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ایسے میں پولیس سمیت سرکاری محکمے یہ یقینی بناتے ہیں کہ مناسب معاشرتی فاصلہ برقرار رکھا جائے۔ دکانوں کو جلدی بند کیا جاتا ہے اور زیادہ افراد کو سرِ عام جمع ہونے پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔

Image

لیکن اٹلی اور کچھ ملکوں میں لاک ڈاؤن بھی وائرس کا پھیلاؤ نہیں روک سکا۔ ایسے حالات میں کرفیو نافذ کرنا پڑتا ہے۔ کرفیو لاک ڈاؤن کی سخت ترین شکل ہے جس میں معاشرتی فاصلہ برقرار نہ رکھنے والے افراد کو بھاری جرمانوں کے ساتھ قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ فی الحال پاکستان میں کرفیو نہیں ہے لیکن مستقبل میں اس کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات عوام کی حفاظت اور زیادہ سے زیادہ زندگیاں بچانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اگر وائرس کو پھیلنے سے روکا نہ جائے تو راتوں رات مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ سکتی ہے جیسے اٹلی اور سپین میں ہوا۔ یہ بھی یاد رہے کہ معاشرتی فاصلہ رکھنا ہی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ اس سلسلے سے میں ہم چین سے سیکھ سکتے ہیں۔

چین میں وائرس کی جڑ وہان سمیت بہت سی جگہوں کو وائرس فری قرار دے دیا گیا ہے۔ لوگ کام پر جانے لگے ہیں، باہر چہل قدمی کر سکتے ہیں اور کھانا لینے بھی جا سکتے ہیں۔ یہ دو وجہوں سے ممکن ہو سکا ہے۔ ایک تو عوام کا حکومت کی ہدایات کے مطابق معاشرتی فاصلہ رکھنے کا عزم اور دوسرا پابندیوں میں نرمی کے بعد بھی احتیاطی تدابیر اپنائے رکھنا۔ چین کے وائرس فری علاقوں میں ابھی بھی لوگ معاشرتی فاصلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں، حفاظتی سامان پہنتے ہیں اور صفائی کا خیال رکھتے ہیں۔

یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ معاشرتی فاصلہ رکھنا اور لاک ڈاؤن میں رہنا بہت مشکل ہے اور اس کے لیے بڑی ہمت کی ضرورت ہے۔ باہر کی دنیا سے کٹ کر اندر رہنا مشکل ہے۔ اپنی نوکریوں کو روک کر اپنے مستقبل سے بے خبر ہو کر زندگی گزارنا واقعی آسان نہیں۔ لیکن معاشرتی فاصلہ رکھنا ہی معمول کی زندگی کی طرف جانے کا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ ابھی تک معاشرتی فاصلہ رکھنا نسبتاً آسان ہے۔ اگر دنیا کے بڑے ملکوں کی طرح حالات خراب ہوئے تو یہ زیادہ مشکل ہو جائے گا۔

By visitng our site, you agree to use of cookies to enhance your browsing experience.  I Agree